حیات غوث العالم ایک نظر میں
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی قدس سرہ النورانی سمنان کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ والدین کی بے پناہ تمناؤں والتجاؤں اور حضرت ابراہیم مجذوب کی دعاؤں اور جناب رسول اکرم ﷺ کی بشارت کے بعد پیدا ہوئے تھے۔
چار سال چار ماہ چار دن کی عمر کوپہونچے تورسم بسم اللہ ہوئی، سات سال کی عمر میں پورا قرآن عظیم قرأت سبعہ کے ساتھ حفظ کر لیا اورقرأت سبعہ پر پوری طرح حاوی ہو گئے۔
اس کے بعدتحصیل علم کی جانب متوجہ ہوئے۔ اور مولانا عمادالدین تبریزی، امام علاء الدولہ سمنانی، شیخ عبدالرزاق کاشانی ، امام عبداللہ یافعی، اور سید علی ہمدانی جیسے نامور علماء وائمہ فن وصوفیائے روزگار و صاحبانِ بصیرت سے آپ نے تعلیم وتربیت حاصل کی اور چودہ سال کے اندرجملہ علوم وفنون پرعبور ودستگاہ حاصل کرلیا۔
تکمیل علوم وفنون کے ایک سال بعد والد مہربان کا سایہ سر سے اٹھ گیا، والد گرامی سلطان سید ابراہیم کے وصال کے بعد نظام حکومت کی پوری ذمہ داری آپ کے کاندھوں پرآ پڑی ، اور آپ تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے۔ سلطان سید ابراہیم کی وفات کے بعد سمنان میں دس سال آپ کا قیام رہا۔ اسی دس سال کی مدت میں حضرت نے تاجداری بھی فرمائی جہاد بھی کیا۔ مقدمات کے فیصلےبھی فرمائے اورانتظامِ حکومت بھی فرمایا اور اس انداز سے کہ اہل سمنان آپ کا یہ دس سالہ دورِاقتدار کبھی نہ بھول سکے۔
لیکن امورِ سلطنت میں مصروفیت کے باوجود آپ نے فرائض وواجبات، سنن ونوافل حتی کہ مستحبات تک کی ادائیگی میں بھی کبھی تساہلینہیں برتی۔
آپ کا دل بچپن ہی سےعشق الٰہی ومعرفت حق وولولہ سلوک اور سیر طریق سے لبریز تھا۔ در ویشوں اورگروہ سالکین کاجو بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ اس کی بڑی عزت و تواضع فرماتے اور اس سے معرفت سلوک حاصل فرماتے اور برابر سعادت وعرفان کے جویاں رہتے۔
سب سےپہلے حضرت خضر علیہ السّلام نے آپ کو رہِ سلوک کی تعلیم دی، اوراس سلسلے میں برابر آپ کی رہنمائی فرماتے رہے، پھر حضرت خواجہ اویس قرنی کی روحانیت نے آپ کو اذ کاراویسیہ کی تعلیم فرمائی۔ آپ ان اذکار میں مشغول رہے۔
لیکن اب آپ کو ایک ایسے مرشد کی تڑپ وجستجو پیدا ہوئی جو آپ کو درجۂ کمال تک پہونچائے اورعلم ظاہر و باطن دونوں کا تاجدار بنادے۔ آپ چاہتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو تخت و تاج سے کنارہ کش ہوکر مرشد کی تلاش میں نکل پڑیں، آپ ہمہ وقت اس فکرمیں لگے رہتے بالآخر ۲۷/ رمضان المبارک کو شب قدر میں آپ حسب معمول عبادت الٰہی اور ذکر وفکر میں مشغول تھے کہ حضرت خضرعلیہ السلام تشریف لائے اور بزبان فصیح ارشاد فرمایاکہ” اے اشرف! اب ترک حکومت اور سلطنت کا | وقت آگیا ہے، حکومت وسلطنت چھوڑ کر ہندوستان کا رُخ کر و،وہاں تمہارے پیرروشن ضمیر حضرت شیخ علاء الدین گنج نبات پنڈوی تمہارے انتظارمیںہیں، تمہاری روحانی تکمیل انھیں سے ہوگی “چنانچہ صبح کو آپ اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کو بیان کیا اور ترک سلطنت کا ارادہ ظاہر فرمایا اور سفر کی اجازت چاہی۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے جواب میں فرمایا میرے جد بزرگوار حضرت خواجہ یسوی رحمتہ اللہ علیہ کی روحانیت نے مجھےخواب میں بشارت دی تھی کہ تمہارا فرزند اشرف عطیہ الٰہی ہے ،اور اس سے ایک عالم کی گمراہی دور ہوگی، اور ایمان و عرفان کی روشنی دنیامیں پھیلے گی۔اب میں سمجھتی ہوں کہ وہ وقت آگیا ہے میں تم کو مبارکباد دیتی ہوں، میں نےتمہیں خدا سے مانگا تھا اوراب اپنے سارےحقوق معاف کر کے تمہیں اسی کے حوالے کرتی ہوں جاؤخدا حافظ۔ البتہ میری خواہش ہے کہ تم جس وقت سمنان سے نکلو تو پورے شاہانہ وقار اور شان و شوکت سے نکلو تاکہ یہ سوچ کر میں اپنے دل کو تسکین دیتی رہوں کہ میرابیٹاکسی ملک کو فتح کرنے جارہا ہے“ دوسرے دن آپ نے حکومت وسلطنت اپنے چھوٹے بھائی کےسپردکی، اورانھیں عدل وانصاف اورشریعت کی پابندی کی تاکید فرمائی اور سمنان سے روانہ ہو گئے۔
حضرت غوث العالم سمنان سے اس شان و شوکت سے روانہ ہوئے کہ دائیں بائیں علماء کی مقدس کی جماعت، امراءو وزراء آپ کے پیچھے پیچھے،اوران کے پیچھے بارہ ہزار فوج کالشکر جرار اورسب سے آخر میں رنجیدہ دل اوراشکبار آنکھوں کے ساتھ سمنان کے مرد وزن کا ہجوم تھا، لیکن چند منزلوں کے بعد آپ نے کچھ الوداعی کلمات کہہ کر سب کو رخصت کردیا۔ اور آگے چل کر ایک منزل ایسی بھی آئی جہاں ان سارے شاہی تکلفات سے الگ ہوکر پیادہ پا ہو گئے۔
دوسال پیدل سفر کے بعدحدود بنگال میں پہونچے، ادھرخضر علیہ السلام اگر ایک طرف برابر آپ کی رہنمائی فرماتے رہے تو دوسری طرف باربار حضرت شیخ علاءالحق والدین گنج نبات پنڈوی کوبھی یہ خبردیتے رہے کہ ملک سمنان کا تاجدار سیداشرف حکومت وسلطنت چھوڑ کرآپ کی خدمت میں آرہا ہے، اور جب حضرت غوث العالم پنڈوہ سے قریب ہوگئے تو آپ کے شیخ نے فرمایا کہ مجھے طالب صادق کی بو آرہی ہے۔ اور آپ کے استقبال کے لیے پنڈوہ سے باہر نکل پڑے۔ یہ دیکھ کر آپ کے اصحاب ومریدین اور اہل شہر کا ایک ہجوم بھی آپ کے ساتھ ہوگیا،حضرت غوث العالم جب پنڈوہ پہونچے شیخ کو شہر کے باہر ہی موجود پایا،والہانہ انداز میں دوڑ کر آگے بڑھے اور حضرت کے قدموں پر گرپڑے، شیخ نے آپ کوا ٹھاکر سینے سے لگا لیا اور فرمایا فرزنداشرف! حضرت خضر علیہ السلام نے تمہارے آنے کی خبر مجھے ستر بار دی ہے ،اورمیری روحانیت ہر منزل پرتمہارےساتھ تھی۔ اس کے بعد آپ کو خانقاہ میں لائے اور مرید فرمایا اور اسی وقت خرقۂ خلافت اور کچھ تبرکات عطا فرمائے۔
حضرت غوث العالم مسلسل چھ سال خدمت شیخ میں رہے اورتعلیم سلوک و معرفت وریاضت ومجاہدات میں مصروف رہے اور راہِ سلوک و معرفت کے منازل طے کرتے رہے، جب منزل تکمیل کو پہونچے تو حضرت شیخ نے بکمال لطف و عنایت سارے اسرار و رموز وحقائق آپ پرمنکشف فرمادیا۔
حضرت غوث العالم وقفے وقفے سے اپنے پیرومرشد کی خدمت میں بارہ سال رہے۔ پہلا قیام چھ سال، دوسرا چارسال، تیسرا دوسال رہا۔ انھیں بارہ سالوں میں آپ کے پیرکی نگاہِ پُر اثر نے آپ کو کامل ومکمل بنادیا۔ اور حضرت غوث العالم کو جہانگیر اورمحبوبیت اورغوثیت کے مقام بلند پر پہونچا دیا۔ اور اس کےبعددیارجو نپور کا صاحبِ ولایت بناکرلوگوں کےر شدو ہدایت اوراشاعت اسلام اورتبلیغ دین کےلیے باصرار تمام روانہ فرمایا۔ اور روح آباد رسول پور درگاہ کو آپ کامستقر اور آرام گاہ قرار دیا اور اس کی نشاندہی فرمائی۔ آپ منزل بہ منزل مختلف جگہوں پر قیام فرماتے ہوئے منزل مقصود تک پہونچے۔ جونپور میں آپ نے قیام فرمایاتو ایک جید عالم حضرت شیخ کبیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ کے مرید ہو گئے اورآپ کی صحبت اختیار کرلیا۔ اپنی منزل مقصود پر پہونچ کر آپ نے ملک الامراء ملک محمود کی مدد سے اس مقام کو تلاش کیا جس کی نشاندہی شیخ نے فرمائی تھی، اس مقام پردرپن ناتھ جوگی کاقبضہ تھا، جو اپنے پانچ سو چیلوں کے ساتھ رہتاتھا، اوربڑا مشہور جادوگر تھا؛ لیکن جب اس نے آپ کے ادنی غلاموں کی روحانی طاقت دیکھا توخود حاضرخدمت ہوا، اور اپنے تمام چیلوں کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوگیا اوربخوشی آپ کے لیے یہ جگہ خالی کر دی۔ حضرت نے ملک محمود کے ذریعہ خانقاہ کی تعمیر شروع کروادی، اورتین سال کے اندر خانقاہ تعمیر ہوگئی؛ لیکن روضے کی مکمل تعمیر اورنیر شریف کی کھدائی کا کام بارہ سال میں پایۂ تکمیل کوپہونچا۔
آپ کی زندگی کا بیشترحصہ سیروسیاحت میں گذرا،آپ نے دنیا کی سیر و سیاحت فرمائی۔ اس درمیان عجیب وغریب واقعات پیش آئے، اوربے پناہ کرامتوں کا صدور ہوا۔ ہزاروں علماء، صوفیاء، اولیائے کرام اور مشائخ عظام سے ملاقاتیں کیں،اور ان سے فیوض وبرکات اورنعمتیں حاصل کیں ۔جن میں شیخ علاء الدولہ سمنانی ، شیخ عبدالرزاق کاشانی، امام عبد اللہ یافعی ، سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت، سید علی ہمدانی، خواجہ حافظ شیرازی، خواجہ بہاءالدین نقشبند، خلیل اتا،شیخ قثم، میرصدر جہاں، شیخ ابوالوفاء خوارزمی،سید محمود گیسودراز، سید جعفر بہرائچی،شیخ نورالدین ابن اسدالدین، شیخ قطب الدین مودود چشتی، شیخ اسماعیل سمنانی، شیخ قوام الدین اودھی، شاہ نعمت اللہ ولی، شیخ صالح سمرقندی، شیخ بدیع الدین شاہ مدار، سیدجمال الدین خور د سکندرپوری وغیرہ آپ کے ان معاصرین میں سے ہیں جن سے حضرت نے ملاقات کی اور لطائف اشرفی دمکتوبات اشرفی میں ان کا تذکرہ ہے۔
جملہ مقامات مقدسہ اور مزارات اولیاء و مشائخ پرآپ نےحاضری دی، اور ان کے فیوض باطنی وروحانی سے مستفید ہوئے ۔ آپ کوچودہ خانوادوں کی اجازت و خلافت کا شرف حاصل تھا۔
تحریر کے میدان میں آئےتو تقریباً تیس گرانقدرکتابیں اور رسالے تصنیف کرڈالے اور اکابر علماء سے خراج تحسین حاصل کیا۔
میدان خطابت میں اترے توفصاحت اور بلاغت کے دریا بہادیئے،جامع مسجد بغدادمیں جب آپ نے ایک بڑے مجمع میں تقریر فرمائی جس میں خودخلیفۂ وقت بھی موجودتھا، حاضرینوجد وکیف میں ڈوب گئے، ایک فاضل وقت، شیخ قطب دمشقی نے تو یہاں تک فرمایاکہ میری عمرسو برس کی ہے بڑے بڑے واعظوں کا بیان سنا لیکن ایسی نور سرور باکیف وپُر تاثیر تقریر نہیں سنا۔
آپ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خلق خدا کیخدمت، رشدو ہدایت، ارشاد و اصلاح اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں گذار دیا، اوربے پناہ لوگوں نے آپ سے فائدہ اٹھایا اور بے شمار لوگ آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو ئے، اور بہت سے لوگ داخل سلسلہ ہوئے۔ آپ کے خلفابھی بہت زیادہ تھے اور ان میں تقریباً سبھی عالم وفاضل، صوفی و بزرگ تھے، ان خلفاء نے بھی اسلام کی بڑی خدمت کی۔
آپ کی ذات گرامی سے سلسلہ عالیہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ اور سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ کی بہت زیادہ ترویج واشاعت ہوئی۔یہاں تک کہ آپ خودصاحب سلسلہ کہلائے اور شریعت مصطفےٰ ﷺ اور دین اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972